وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ یقیناً ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر بھی جو تمھاری طرف نازل کیا گیا اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا، اللہ کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں، وہ اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہیں لیتے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
134۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض اہل کتاب میں دین داری ہوتی ہے، وہ دوسرے عام اہل کتاب کی مانند نہیں ہوتے ہیں، جن کے شرمناک اعمال کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اور آئندہ بھی آئے گا، یہ لوگ سابقہ آسمانی کتابوں پر ایمان کے ساتھ، اللہ پر اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل شدہ دین و قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں، اللہ کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے متعلق بشارتوں اور نشانیوں کو نہیں چھپاتے۔ ان اچھی صفات کے لوگ یہودیوں میں کم پائے گئے، جیسے عبداللہ بن سلام اور بعض دیگر علمائے یہود جن کی تعداد دس سے کم ہی تھی، لیکن نصاری میں اچھے لوگ زیادہ ہوئے جن میں سے بہتوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا، انہی مسلمان اہل کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں، اور کئی دوسری آیتوں میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ امام احمد نے ہجرت حبشہ سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ جعفر بن ابی طالب نے جب نجاشی کے سامنے سورۃ مریم کی تلاوت کی، تو وہ اور اس کے پاس بیٹھے ہوئے دیگر علمائے نصاری اس طرح روئے کہ آنسو سے ان کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔ اس آیت کے شان نزول میں صحیحین کی روایت آتی ہے کہ جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صحابہ کرام کو خبر دی اور میدان میں جا کر صحابہ کے ساتھ اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، تو بعض منافقین نے کہا کہ محمد ہمیں ایک کالے موٹے حبشی کے لیے دعائے مغفرت کا حکم دیتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔