وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
حافظ ابن کثیر نے آیت (39) کے ضمن میں لکھا ہے کہ امام شافعی اور ان کے شاگردوں نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قرأت کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا ہے اس لئے کہ وہ ان کا اپنا عمل نہیں ہوتا ہے اسی لئے رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی امت کو نص یا اشارہ کس طرح بھی اس کی ترغیب نہیں دلائی ہے اور نہ صحابہ کرام نے ایسا کیا اگر یہ کام اچھا ہوتا تو صحابہ کرام نے ضرور کیا ہوتا ثواب کے کاموں میں نص پر اکتفا کیا جاتا ہے ان میں قیاس اور رائے پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ البتہ دعا اور صدقہ کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے، کیونکہ یہ نص سے ثابت ہے امام مسلم نے اپنی کتاب ” الصحیح“ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے، صرف تین ذریعوں سے اس کو ثواب ملتا رہتا ہے : نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے، صدقہ جاریہ اور علم جس سے لوگ نفع حاصل کریں۔ اس لئے کہ درحقیقت یہ تینوں کام اس کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہیں اور اس کے عمل کا ایک حصہ ہیں، جیسا کہ عائشہ (رض) کی اس حدیث میں آیا ہے جسے نسائی نے روایت کی ہے، کہ سب سے پاکیزہ روزی وہ ہے جو آدمی کی اپنی کمائی ہو اور اس کا بیٹا اس کی کمائی ہے اور صدقہ جاریہ جیسے وقف وغیرہ اس کے اپنے عمل کا حصہ ہے اور جس علم کو وہ لوگوں میں پھیلاتا ہے وہ بھی اس کے عمل کا حصہ ہے۔