وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ
اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کی تسبیح کر اور ستاروں کے جانے کے بعد بھی۔
ان حضرات نے اپنی اس رائے کی تائید میں آنے والی آیت (49) پیش کی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو رات میں بیدار ہو کر اور رات کے آخری حصہ میں اپنے رب کی تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا ہے، یعنی اس سے معلوم ہوا کہ اوپر والی آیت (48) میں سے مراد پنجوقتہ نماز ہے۔ مجاہد نے سے مراد ہر مجلس سے اٹھنا لیا ہے، مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور کثرت سے اونچی آواز میں بات کرے، اور اٹھنے سے پہلے کہے :“ سبحانک اللھم وبحمدک اشھدان لا الہ الا اللہ استغفرو اتوب الیک ” تو اللہ تعالیٰ اس کے اس مجلس کے گناہوں کو معاف کر دے گا، اس حدیث کو ترمذی اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یعنی رات کے بالکل آخری حصہ میں اللہ کی تسبیح بیان کرنے میں فجر کی نماز بھی داخل ہے اور ابن عباس (رض) کے نزدیک سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں، صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ کسی نفل نماز کا اہتمام نہیں کرتے تھے اور امام مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو رکعتیں دنیا و مافیہما سے بہتر ہے۔ وباللہ التوفیق