وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور وہ لوگ جو اس میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، ہرگز گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے، عنقریب قیامت کے دن انھیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا جس میں انھوں نے بخل کیا اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی میراث ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا باخبر ہے۔
120۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان کی قربانی دینے کی خوب ترغیب دلائی ہے، اور یہاں مال کی قربانی پر زور دیا ہے، اور بخیلوں کے لیے وعیدِ شدید کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مال جمع کرنا ان کے لیے نفع بخش ہے، یہ تو قیامت کے دن عذاب الیم کا سبب بنے گا اور طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ امام بخاری نے کتاب الزکاۃ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مال دیا اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن وہ ایک زہریلا سانپ بن کر اس کے سامنے آئے گا، جس کی دونوں آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور اسے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا، پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، اس کے بعد اللہ کے رسول نے یہی آیت پڑھی۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، ان کا مالک تو اللہ ہے، پھر کسی کو کیسے یہ جرأت ہوتی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتا؟