وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
اور درختوں کے جھنڈ والوں نے اور تبع کی قوم نے، ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہوگیا۔
اور اصحاب ایکہ نے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت ٹھکرا دی تھی اور ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے، سورۃ الشعراء آیت (176) میں تفصیل گذر چکی ہے اور تبع حمیر کی قوم نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کی اور دین کی صحیح باتوں کو ٹھکرا دیا تھا سورۃ الدخان آیت (37) کی تفسیر میں تفصیل گذر چکی ہے ان تمام قوموں نے اپنے اپنے رسولوں کی اور ان کے لائے ہوئے دین کی تکذیب کی، تو اللہ کا عذاب ان کے لئے واجب ہوگیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس تفصیل سے مقصود مشرکین قریش کو ڈرانا اور دھمکانا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی، اور رسول اللہ (ﷺ) کی تکذیب سے باز نہ آئے، تو ان پر بھی اللہ کا عذاب انہی قوموں کی طرح نازل ہوگا، نیز نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینی بھی مقصود ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلاتی ہے تو غم نہ کیجیے، کیونکہ ان سے پہلی قوموں کا بھی یہی وطیرہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور ان میں سے بہت کم لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی۔