سورة الفتح - آیت 26

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے دلوں میں ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی تو اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اتار دی اور انھیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے لائق تھے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(17) اگر مکہ کے میں مومنین نہ ہوتے، یا مشرکین سے الگ تھلگ ہوتے، تو اللہ تعالیٰ مجاہدین مدینہ کو اہل مکہ سے جنگ کرنے کی اجازت اس لئے دے دیتا کہ ان کافروں نے مسلمانوں کے خلاف جاہلیت کی حمیت کو اپنے دلوں میں ابھارا، وثیقہ صلح پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور محمد رسول اللہ لکھنے سے انکار کیا، اور رسول اللہ (ﷺ) کو اس سال خانہ کعبہ تک پہنچنے سے روکا اور کہا کہ ” ان مسلمانوں نے ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کیا ہے، اور اب ہمارے گھروں میں داخل ہونا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو قبائل عرب کہیں گے کہ مسلمان اہل مکہ کے گھروں میں زبردستی داخل ہوگئے، لات و عزیٰ کی قسم ! ہم انہیں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ “ لیکن ان کی تمام شرپسندوں کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کے دلوں کو سکون و اطمینان عطا کیا، اسی لیے انہوں نے مشرکین سے جنگ کرنے کی نہیں سوچی، اللہ کے فیصلے پر صبر کیا اور صلح کی شروط کی پابندی کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کلمہ تقویٰ(لا الہ الا اللہ) کو اپنا لیں، تاکہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے سے باز رہیں اور مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ اس کلمہ توحید کے زیادہ حقدارتھے اور دین اسلام اور صحبت رسول کی وجہ سے وہی اس نعمت عظمیٰ کے اہل تھے اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اس لئے وہ خوب جانتا ہے کہ اس نعمت کا حقدار کون ہے۔