وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
اور بہت سی غنیمتیں، جنھیں وہ حاصل کرینگے اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس نے مومنوں کے دلوں کی صداقت اور ان کے عہد پر قائم رہنے کے عزم صمیم کو جان لیا، تو انہیں صبر و ثبات قدمی اور سکون قلب عطا فرمایا اور ان کے صبر و شکیبائی کے بدلے انہیں اہل مکہ کے غنائم کے بجائے جلد ہی فتح خیبر اور وہاں پائے جانے والے بہت سے غنائم کی خوشخبری دی اس زمانے میں خیبر کی سر زمین بہت ہی زرخیز مانی جاتی تھی، اور وہاں کے یہودیوں کے پاس بڑی دولت تھی نبی کریم (ﷺ) نے ان تمام پھلوں، زمینوں اور مال و دولت کو بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیا۔ اس بیعت کا سبب یہ تھا کہ نبی کریم (ﷺ) نے عثمان بن عفان (رض) کو اہل قریش کے پاس اپنا ایلچی بنا کر بھیجا، تاکہ وہ انہیں اس بات کا یقین دلائیں کہ آپ (ﷺ) اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں، اس کے علاوہ آپ کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ عثمان جب پیغام رسانی سے فارغ ہوئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو خانہ کعبہ کا طواف کرلو، انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ (ﷺ) سے پہلے طواف نہیں کروں گا۔ اس بات پر وہ لوگ چراغ پا ہوگئے اور عثمان کو واپس جانے سے روک دیا ادھر مسلمانوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ عثمان قتل کردیئے گئے، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جب تک ہم مکہ والوں سے بدلہ نہیں لیں گے، یہاں سے واپس نہیں جائیں گے اور مسلمانوں کی سرکی بازی لگانے کے لئے اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا حکم دیا۔