وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔
115۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا مقصد مؤمن و منافق اور صادق و کاذب کے درمیان تفریق کرنا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے، جس کی تفصیل اس آیت میں آئی ہے، اور یہ وہ مقام ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی کو کوشش کرنی چاہئے، اللہ کی راہ میں جان دینا ایسا عمل ہے، جس کی طرف ہر ایک کو سبقت کرنی چاہئے۔ بعض نے کہا کہ یہ آیت شہدائے بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور بعض نے کہا کہ بئر معونہ کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جن کی تعداد چالیس یا ستر تھی، اور جنہیں عامر بن الطفیل الجعفری نے غار میں گھیر کر قتل کردیا تھا۔ لیکن جیسا کہ علمائے تفسیر ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا نہیں، یعنی شہیدوں کی جو فضیلت یہاں بیان کی گئی ہے، وہ سارے شہدائے اسلام کے لیے عام ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک شہداء حقیقی معنوں میں زندہ ہیں، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں مجازی زندگی مراد ہے، لیکن راجح پہلی رائے ہے، صحیح احادیث کے مطابق ان کی روحیں سبز چڑیوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں، وہ جنت کے پھل کھاتی ہیں، اور عرش کے ساتھ معلق قندیلوں میں پناہ لیتی ہیں، اور اللہ نے ان کے ساتھ جو اکرام کا معاملہ کیا ہے، اس سے غایت درجہ خوش ہیں، اور دنیا میں ان کے جو مؤمن بھائی رہ گئے ہیں، ان کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی ہیں کہ انہیں بھی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نہ کوئی خوف لاحق ہوگا، اور نہ کسی بات کا غم ہوگا، اور جنت کی نعمتوں اور آسائشوں سے مستفید ہوں گے