وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ منافقین اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی کے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی کوئی شخص کفر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص ایمان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ واحدی نے لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے گا، اس کا کفر جانتے ہوئے بھی اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اللہ نے ان منافقین کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں۔