وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔ پس ان کے لیے بہتر ہے۔
(11) ہجرت مدینہ کے بعد مسلمان جن حالات سے گذر رہے تھے اور مکہ اور دیگر علاقوں کے کفار مسلمانوں پر جو ظلم و بربریت ڈھا رہے تھے، انہیں سن سن کر مخلص مسلمانوں کے دل تنگ ہو رہے تھے، اور چاہتے تھے کہ انہیں اللہ کی طرف سے جہاد کی اجازت مل جائے تاکہ کافروں کے ساتھ قتال کر کے ان سے انتقام لے سکیں، چنانچہ قرآن کریم میں حکم جہاد نازل ہوا، تو وہ آیتیں منافقین کے دلوں پر بجلی بن کر گریں، اور رسول اللہ (ﷺ) کی طرف ایسی نظروں سے دیکھنے لگے کہ جیسے ان پر موت کی بے ہوشی طاری ہو، اب تک تو وہ نماز اور دیگر ہلکے اعمال اسلام کے ذریعہ اپنے مسلمان ہونے کا ظاہری ثبوت بہم پہنچا رہے تھے، اور اپنے نفاق پر پردہ ڈال رکھا تھا، اب جو حکم جہاد آگیا اور ان سے جان و مال کی قربانی کا مطالبہ ہوا تو ان کی آنکھوں میں موت کا نقشہ پھر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کو دھمکی دی کہ ان کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔ جوہری اور اصمعی نے ﴿فَأَوْلَى لَهُمْ﴾ کا یہی معنی بیان کیا ے۔ اس کا ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے لئے بہتر یہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے اور رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں اپنی زبان سے اچھی بات نکالتے اور جب جہاد کا وقت آجاتا،