سورة آل عمران - آیت 165

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا ؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

113۔ اب تک سیاق کلام غزوہ احد ہی سے متعلق ہے، مسلمان جب قتل، زخم اور شکست کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے تو ان کی زبان سے حیرت و استعجاب کے طور پر نکلا کہ ایسا کیسے ہوا؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کے نبی کے ساتھ جہاد کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، یعنی تمہارے ستر آدمی قتل ہوگئے (حالانکہ تم میدان بدر میں اپنے دشمن کو اس کے دوگنا زک پہنچا چکے تھے، یعنی ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا، اور ستر کو پابند سلاسل کیا) تو تم نے کہا کہ اللہ نے تو فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، پھر ایسا کیوں ہوا؟ تو اللہ نے اپنے رسول سے کہا کہ آپ انہیں جواب دیجئے کہ یہ تمہارے کرتوت کا ہی نتیجہ ہے، تم نے مرکز کو چھوڑ کر اپنے نبی کے حکم کی مخالفت کی تو یہ دن دیکھنا پڑا، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ تو اطاعت اور ثبات قدمی کے ساتھ مشروط تھا۔