قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
ہم نے کہا سب کے سب اس سے اتر جاؤ، پھر اگر کبھی تمھارے پاس میری طرف سے واقعی کوئی ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا سو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
87: آدم کے زمین پر چلے جانے کا ذکر دوبارہ اس لیے ہوا تاکہ اس کے بعد آنے والا حکم اس پر مرتب ہوسکے، اور یہاں مراد آدم کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو خطاب کر کے کہا کہ تم زمین پر رہو گے، اور ہم تمہاری ہدایت کے لیے کتابیں اتاریں گے اور انبیاء ورسل بھیجیں گے، تو جو لوگ میری بھیجی گئی ہدایت کی اتباع کریں گے، انہیں نہ دنیا میں کسی کھوئی ہوئی چیز کا غم ہوگا اور نہ آخرت میں اپنے انجام کے بارے میں کوئی خوف لاحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا، آیت ، یعنی جو میری ہدایت کو مانے گا وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں اسے بدنصیبی لاحق ہوگی (طہ : 123) اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ لوگ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : اہل جہنم، جنہیں اس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا، وہ لوگ نہ اس میں مریں گے اور نہ زندہ ہی رہیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر ان کو موت لاحق ہوجائے گی، یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، اس کے بعد ان کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور یہاں ابن جریر طبری کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ درج کیا گیا ہے) (فائدہ)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جنت جس سے آدم نکالے گئے تھے زمین پر تھی اور جنت سے نکل کر زمین پر جانے کا مطلب، ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس جنت سے مراد وہی جنت ہے، جسے اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے پیدا کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا یہی قول ہے اور جو کوئی کہتا ہے کہ وہ جنت زمین پر ہندوستان یا جدہ یا کسی اور جگہ تھی، تو وہ ملحد اور بدعتی ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ فائدہ : ابن مسعود، ابن عباس (رض) اور جمہور علماء کا خیال ہے کہ شیطان نے آدم کو براہ راست اور روبرو جا کر بہکایا، اس کی دلیل قرآن کریم کی آیات ہیں جن سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے، شیطان نے آدم سے کہا، آیت، کیا میں تمہیں شجرہ خلد کا پتہ دوں (طہ : 120)۔ دوسری جگہ کہا آیت۔ یعنی اللہ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ تم دونوں فرشتے یا اس جنت میں رہنے والے نہ بن جاؤ، (الاعراف : 20)۔ اور تیسری جگہ قرآن کریم ابلیس کی بات نقل کرتا ہے آیت کہ میں تم دونوں کا بڑا ہی خیر خواہ ہوں۔ اور یہ باتیں تو روبرو گفتگو میں ہی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ خیال صحیح نہیں کہ شیطان نے آدم کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا۔ فائدہ : مفسرین نے ان آیتوں سے اور انہی جیسی دوسری آیتوں سے استدلال کیا ہے کہ ثواب و عقاب میں جن انسانوں کے مانند ہیں، اور انسانوں میں جس طرح جنتی اور جہنی ہوں گے، اسی طرح جنوں میں بھی ہوں گے کیونکہ اللہ کے اوامر و نواہی دونوں کو شامل ہیں۔