لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔
112۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوپر اپنے احسان کا ذکر کیا ہے، کہ اس نے ان کی رہنمائی کے لیے انہی جیسے ایک عربی آدمی کو اپنا رسول بنا کر بھیجا، تاکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرسکیں، اور اس کی تعلیمات سے مستفید ہوسکیں، اور چونکہ رسول کی بعثت سے مسلمان ہی حقیقی معنوں میں مستفید ہوئے، اس لیے انہیں کے اوپر احسان کا ذکر آیا، ورنہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الانبیاء آیت 107 میں فرمایا، ۔ کہ ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس رسول کی صفت یہ ہے کہ وہ انہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں، جبکہ اس کے پہلے ان عربوں کے پاس کوئی وحی نہیں آئی تھی، انہیں دعوت توحید اور دعوت اسلام کے ذریعہ شرک اور گناہوں سے پاک کرتے ہیں، اور انہیں قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں، عرب والے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت اور ان کے تزکیہ و تعلیم کے پہلے کھلی گمراہی میں تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، حرام اور گندی چیزیں کھاتے تھے، اور ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے، اللہ نے اپنا نبی بھیج کر انہیں ظلمت سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیا، اور علم، زہد اور عبادت میں انہیں دنیا کا بہترین انسان بنا دیا، اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ احسان عظیم تھا، جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں آیا ہے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور عرب سبھوں میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، موسیٰ، عیسیٰ اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔