فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ
پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کر، جس دن وہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا نہیں رہے۔ یہ پہنچا دینا ہے، پھر کیا نافرمان لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک کیا جائے گا ؟
(23) توحید و رسالت اور بعث بعد الموت کے حقائق دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو دعوت کی راہ میں صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ (ﷺ) سے پہلے جو اولوالعزم انبیاء گذرے ہیں، ان کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ بنانے کی نصیحت کی ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اولوالعزم انبیاء سے مراد نبی کریم، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں، بعض نے ان کی تعداد چھ اور بعض نے نو بتائی ہے اور ان سے مراد وہ انبیائے کرام ہیں جنہوں نے دعوت حق کی راہ میں ایسی تکلیف اٹھائی جو دیگر انبیاء کی طاقت سے باہر کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو یہ بھی نصیحت کی ہے کہ اہل قریش کے ظلم و طغیان سے تنگ دل ہو کر ان کے لئے عذاب کی جلدی نہ کریں، کیونکہ وہ تو اتنا قریب ہے کہ جب اہل کفر روز قیامت کی ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، تو مارے دہشت کے بھول جائیں گے کہ وہ دنیا میں کتنے دن ٹھہرے تھے۔ نیز فرمایا کہ یہ قرآن اور جو باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں، مشرکین مکہ کی عبرت و نصیحت کے لئے کافی ہیں، پس انہیں چاہئے کہ عبرت حاصل کریں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہیں ہوتے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ کا عذاب انہی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے رب کے نافرمان او سرکش بندے ہوتے ہیں۔ وباللہ التوفیق