وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہ کرے گا تو نہ وہ زمین میں کسی طرح عاجز کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا اس کے کوئی مددگار ہوں گے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
جنوں نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے اپنی قوم سے کہا : لوگو ! جو شخص نبی کریم (ﷺ) کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرے گا، اور ان پر اور قرآن پر ایمان نہیں لائے گا، وہ اللہ سے بھاگ کر کہاں جائے گا، زمین کا ایک ایک حصہ اس کے زیر تصرف اور زیر حراست ہے۔ اس کی گرفت سے کون بچ سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں کون ایسے شخص کی مدد کرسکتا ہے۔ جو لوگ نبی کریم (ﷺ) کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے وہ کھلی گمراہی میں پڑجائیں گے اور کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔ جنوں کا نبی کریم (ﷺ) کی زبانی قرآن کریم سننے او رآپ سے دین کی باتیں سیکھنے سے متعلق بہت سی احدیث وارد ہوئی ہیں، جن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ (ﷺ) سے بارہاقرآن کریم سنا، جن میں سے بعض کا قرآن کریم میں اور بعض کا احادیث میں ذکر آیا ہے، اور آپ سے ان کی بہت سی ملاقاتوں کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن و سنت میں نہیں آیا ہے، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) جنوں کی ہدایت کے لئے بھی مبعوث کئے گئے تھے۔ اس لئے بہت سے جن آپ کی مجلسوں میں حاضر ہو کر آپ سے اسلام کی تعلیم حاصل کرتے رہے، بلکہ صحیح مسلم میں مروی عبداللہ بن مسعود (رض) کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک رات آپ (ﷺ) جنوں کی درخواست پر اکیلے ان کی قوم کے پاس گئے اور انہیں اسلام کی تعلیم دی اور مسند احمد میں مروی عبد اللہ بن مسعود (رض) کی ایک دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسری بار آپ (ﷺ) جب جنوں کو اسلام کی تعلیم دینے گئے تو عبداللہ بن مسعود (رض) آپ کے ساتھ گئے تھے۔ مذکورہ بالا آیات کریمہ میں جنوں کے جس واقعہ کا ذکر آیا ہے، اس کے بارے میں محمد بن اسحاق نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب آپ (ﷺ) طائف والوں کے قبول اسلام سے مایوس ہو کر مکہ مکرمہ واپس ہو رہے تھے اور رات کو وادی نخلہ میں ٹھہر گئے تھے تو نصیبین کے جنوں نے آپ کی زبانی قرآن کریم کی تلاوت سنی۔ اس واقعہ کو حاکم، ابن مردویہ، ابو نعیم اور بیہقی نے بھی اختصار کے ساتھ رویت کیا ہے، جس میں آیا ہے کہ ان جنوں کی تعداد نو تھی اور ان میں سے ایک کا نام زوجہ تھا۔ مسند احمد کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ اس وقت آپ (ﷺ) عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے روایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کو جنوں کی آمد اور قرآن کریم سننے کا علم اس وقت ہوا جب یہ آیتیں آپ (ﷺ) پر نازل ہوئیں۔ حافظ ابن کثیر کا خیال ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی زبانی قرآن کی تلاوت سننے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، جیسا کہ مسند احمد میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی بعثت سے پہلے جن وحی سماوی سن لیا کرتے تھے، آپ (ﷺ) کی بعثت کے بعد جب انہوں نے ایسی کوشش کی تو انہیں انگاروں سے مار اجانے لگا۔ چنانچہ ابلیس نے جنوں کو پتہ لگانے کے لئے بھیجا، تو انہوں نے آپ (ﷺ) کو وادی نخلہ کے دو پہاڑوں کے درمیان قرآن پڑھتے پایا۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ جنوں نے ابتدائے وحی میں ہی آپ کی زبانی قرآن سنا تھا، لیکن طائف سے واپسی کے وقت وادی نخلہ میں آپ کی زبانی قرآن سننے کے بعد، ان کے وفود آپ (ﷺ) کے پاس پے در پے آنے لگے اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔