وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔
(9) مشرکین مکہ، بلال، عمار، صہیب، خباب اور ان جیسے کمزور مسلمانوں کا نام لے کر کہتے تھے کہ اگر قرآن اور نبوت محمد میں کوئی خیر ہوتی، تو یہ فقیر و حقیر مسلمان ایمان لانے میں ہم سے سبقت نہیں کر جاتے، وہ سمجھتے تھے کہ ہر عزت و شرف کے پہلے وہی مستحق ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے اور اپنے دین کے لئے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ انہی مشرکین کے بارے میں آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ چونکہ انہیں قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی، اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے جو محمد کو کہیں سے مل گیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ وہ لوگ قرآن اور اہل قرآن کی برائی بیان کرتے تھے اور یہی کبر ہے جس کے بارے اللہ کے رسول (ﷺ) نے کہا ہے کہ وہ حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔