أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
پھر کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو بنا لیا اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ پھر اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے، تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
(15) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے ان لوگوں کے حال پر اظہارت عجب کیا ہے، جن کا معبود ان کا نفس ہوتا ہے، جو اللہ کے دین کے بجائے اپنے نفس کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ضلالت و گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ﴿وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ﴾کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اپنے نفس کا وہ بندہ جان رہا ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے، اس کے باوجود اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا، اس لئے اللہ تعالیٰ اسے گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیتا ہے، اس لئے نہ وہ خیر کی کوئی بات سن پاتا ہے، نہ ہی خیر و شر کی تمیز کر پاتا ہے، اور نہ حق پر چلنے کی اسے توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا حال وہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا، یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے ہدایت کی توفیق کون دے سکتا ہے، لوگو ! تم یہ باتیں سن کر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے اور ایمان و عمل کی زندگی اختیار کر کے اپنے رب کی رضا اور جنت کے حقدار کیوں نہیں بنتے؟!