أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کرلیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہوگا ؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں۔
(13) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات مختلف پیرائے میں بارہا کہی ہے کہ نیک و بد اور صالح و طالح کا انجام ایک جیسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اسی بات کو اللہ نے یہاں بھی بیان کیا ہے کہ کیا شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم انہیں دنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے برابر بنا دیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیا اہل ایمان نے تو دنیا میں اپنے رب کی بندگی کی اور سکون قلب کی دولت سے مالا مال رہے، اور آخرت میں اس کی رحمت اور جنت کے حقدار ہوں گے۔ اور شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے والےتو دنیا میں اپنے رب کے نافرمان رہے اور سکون قلب سے محروم رہے، اور آخرت میں اس کی رحمت اور جنت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ سورۃ طہ آیت (124) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾ ” پس جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ بہکے گا، نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا بنا کر اٹھائیں گے۔ “