وَآتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ ۖ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور انھیں (دین کے) معاملے میں واضح احکام عطا کیے، پھر انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس میں ضد کی وجہ سے، بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
بہت سے مفسرین نے آیت (17) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے تورات اس لئے نازل کی تھا کہ وہ لوگ اس میں بیان کردہ احکام شریعت پر عمل کر کے اپنے آپس کا اختلاف دور کریں، لیکن معاملہ الٹا ہوا اور ایک دوسرے سے بغض و حسد کی وجہ سے انہوں نے احکام شریعت کو پس پشت ڈال دیا اور ان کا آپس کا اختلاف بڑھتا ہی گیا اور انہوں نے اللہ کے دین و شریعت کو کھلواڑ بنال یا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ان یہود کے درمیان فیصلے کرے گا اور ان کو ان کے کئے کا بدلہ دے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس میں امت محمدیہ کے لئے زبردست تنبیہ ہے کہ قرآن و سنت کے ساتھ اگر انہوں نے بھی ویسا ہی برتاؤ کیا، جیسا یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل کے ساتھ کیا ہے، تو پھر وہ بھی برے انجام کا انتظار کریں۔