إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
جب تم دور چلے جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول تمھاری پچھلی جماعت میں تمھیں بلا رہا تھا تو اس نے بدلے میں تمھیں غم کے ساتھ اور غم دیا، تاکہ تم نہ اس پر غمزدہ ہو جو تمھارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمھیں مصیبت پہنچی اور اللہ اس کی پوری خبر رکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔
105۔ سلسلہ کلام غزوہ احد کے بارے میں ہی ہے۔ جب خالد بن ولید کے دستہ نے باقی ماندہ تیر اندازوں کو قتل کر کے پہاڑی کی طرف سے حملہ کردیا، تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، اور رعب و دہشت کی وجہ سے ایسا سرپٹ بھاگے کہ کسی کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے۔ بعض مدینہ کی طرف بھاگے، اور بعض پہاڑوں کی طرف، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لوگوں کو بلانے لگے کہ اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، مسند امام احمد میں براء بن عازب (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ اور مسلم میں انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ صرف نو آدمی رہ گئے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں مال غنیمت فوت ہوجانے کا غم، شکست کا غم، بہتوں کے زخمی ہونے کا غم، بہتوں کے قتل ہونے کا غم اور پھر یہ غم اٹھانا پڑا کہ شیطان نے یہ بات پھیلا دی کہ محمد کا قتل ہوگیا، اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ انہیں مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت پڑے، اور ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ فتح و نصرت اور حصول مال غنیمت سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، ان کی قدرت و طاقت کا اس میں کوئی دخل نہیں۔