فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ
سو انتظار کر جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
(6) بخاری، مسلم، امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے مختلف سندوں کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب اہل قریش کا رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف کبرد عناد بڑھتا گیا، تو آپ (ﷺ) نے دعا کی کہ اے اللہ ! انہیں قوم یوسف کی طرح سات سال کی قحط سالی میں مبتلا کر کے میری ان کے خلاف مدد فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ لوگوں نے ہڈیاں، چمڑے اور مردار جانور تک کھائے اور مارے بھوک کے جب آسمان کی طرف دیکھتے تو ان کی آنکھوں کے سامنے دھواں سا آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ﴿ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ نازل کیا اور جب حالات کی سختی اور بڑھتی تو ابوسفیان نے کہا، اے محمد ! تم ہمیں طاعت و صلہ رحمی کی طرف بلاتے ہو اور تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کرو کہ یہ قحط سالی ختم ہوجائے، تو اللہ نے ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ ﴾ نازل کیا، لیکن جب قحط سالی دورہو گئی اور ان کا کبرو عناد پہلے سے زیادہ ہوگیاتو اللہ تعالیٰ نے ﴿ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ﴾ نازل فرمایا اور میدان بدر میں ان سے انتقام لے لیا۔ آیت (10) میں جس دھواں کا ذکر آیا ہے، اس کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں، ایک تو یہی جواو پر گذر چکا ہے کہ اس سے مراد دھواں کی وہ کیفیت ہے جو قحط سالی کے دنوں میں بھوک کی شدت سے اہل مکہ کی آنکھوں کے سامنے پیدا ہوتی تھی۔ اس قول کے مطابق وہ دن گذر گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کی دس نشانیوں میں ایک نشانی ہے، اور چالیس دن تک باقی رہے گا۔ اس قول کے مطابق وہ دن ابھی نہیں آیا ہے۔ علی، ابن عباس، حذیفہ، اور تابعین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ کا دن ہے۔ شوکانی نے تینوں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ صحیحین کی روایت کے مدنظر راجح پہلا قول ہے، اور یہ بات اس کے منافی نہیں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی دھواں ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اور نہ اس کے منافی ہے کہ فتح مکہ کے دن ایک دھواں نظر آیا تھا، جسے ابن سعد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، جس کی سند محل نظر ہے، اور جس کے پیش نظر ابوہریرہ نے سمجھا کہ اس آیت میں ” دھواں“ سے مراد وہی فتح مکہ کے دن کا دھواں ہے۔ مفسر ابوالسعود نے بھی پہلے قول کو ترجیح دیا ہے۔