إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
بے شک ہم نے اسے ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈرانے والے تھے۔
(3) سورۃ الزخرف کی آیت (2) کی طرح یہاں بھی باری تعالیٰ نے قرآن کریم کی قسم کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قرآن محمد (ﷺ) کا کلام نہیں ہے، بلکہ اسے ہم نے نازل کیا ہے اور وہ رات بڑی ہی خیر و برکت والی تھی جس میں ہم نے اسے نازل کیا تھا۔ وہ شب قدر تھی جس کی صراحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (185) میں کردی ہے۔ فرمایا : ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ ” وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیا گیا۔“ اور اس کی مزید صراحت سورۃ القدر آیت (1) یوں فرما دی : ﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ” ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ “ قتادہ کہتے ہیں کہ پورا قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزۃ تک نازل کیا گیا، پھر وہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے 23 سال کی مدت میں مختلف اوقات میں نازل فرمایا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ چونکہ نزول قرآن کی ابتدا ماہ رمضان میں ہوئی، اسی لئے علی سبیل التغلیب یہاں کہا گیا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو برکتوں والی رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوا، جس میں دین و دنیا کی ہر بھلائی کی طرف بنی نوع انسان کی رہنمائی کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ اللہ کی رحمت و برکت اور عدل و ہدایت سارے عالم میں پھیل گئی ہے اور جس رات کی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) کو بلند ترین رتبہ ملا اور یہ وہ رات ہے جس میں فرشتوں اور روح الامین کا زمین پر نزول ہوتا ہے