أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَن كَانَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
پھر کیا تو بہروں کو سنائے گا، یا اندھوں کو راہ دکھائے گا اور ان کو جو صاف گمراہی میں پڑے ہیں۔
(17) نبی کریم (ﷺ) کفار قریش کے رشد و ہدایت کی بڑی خواہش رکھتے تھے، اسی لئے ان کے سامنے دعوت حق پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور ان کی سرد مہری اور بے اعتنائی دیکھ کر ملول خاطر ہوتے تو اللہ تعالیٰ انہیں تسلی دیتا اور کہتا کہ آپ کا کام تو دعوت اسلام پیش کردینا ہے، ہدایت دینا تو صرف اللہ کا کام ہے اور کفار قریش تو بہرے ہیں، ان سے تو قوت سماع سلب کرلی گئی ہے، یہ کب اللہ کی آیتوں اور دلیلوں کو سن سکیں گے، یہ تو اندھے ہیں، قوت بصارت سے محروم ہیں، اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر بھی ان سے عبرت حاصل نہیں کرسکیں گے اور گم گشتہ راہ ہیں، سیدھی راہ سے کو سوں دور نکل گئے ہیں، اب راہ راست پر نہ آسکیں گے۔