وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور یقیناً اگر ہم اسے کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو، اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو ضرور ہی کہے گا یہ میرا حق ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر واقعی مجھے اپنے رب کی طرف واپس لے جایا گیا تو یقیناً میرے لیے اس کے پاس ضرور بھلائی ہے۔ پس ہم یقیناً ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ضرور بتائیں گے جو کچھ انھوں نے کیا اور یقیناً ہم انھیں ایک سخت عذاب میں سے ضرور چکھائیں گے۔
(33) اور جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کردیتا ہے، محتاجی کے بعد اسے دولت عطا کردیتا ہے، تو اپنا ماضی بھول جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے فخر کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دولت تو میں نے اپنی ذہانت اور محنت سے حاصل کی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور جب اسے قیامت کی یاد دلائی جاتی ہے تاکہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے لوگوں پر صدقہ و احسان کرے تو کہنے لگتا ہے کہ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں، انسان کی پیدائش نیچر کا نتیجہ ہے، آدمی مر کر گل سڑ جائے گا اور دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور قیامت نہیں آئے گی اور اگر مان بھی لیں کہ ہم دوبارہ اپنے رب کے پاس جائیں گے تو وہاں بھی ہمیں جنت ملے گی، کیونکہ ہم اس کی نگاہ میں اچھے ہیں، جبھی تو اس نے ہمیں اس دنیا میں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان منکرین قیامت احسان فراموشوں کا انجام بتایا کہ وہ روز قیامت ان کے برے اعمال ان کے سامنے رکھ دے گا، تاکہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کی جھوٹی تمنائیں خاک میں مل جائیں، پھر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا جس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔