وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ہم نے کہا اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔
78: اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، ان کو عزت دی، اور پھر ان کی بیوی کو ان کی پسلی سے پیدا کیا، تاکہ آدم ان کے ذریعے سکون حاصل کریں، اور اللہ نے اپنی نعمت ان پر تمام کردی کہ دونوں کو حکم دیا کہ جنت میں رہیں اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا : إِنَّ لَكَ أَلاَّ تَجُوعَ فِيها وَلا تَعْرى وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحىĬ۔ اللہ نے آدم سے کہا کہ جنت میں نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ تم ننگے ہوگے، نہ تمہیں پیاس لگے گی اور نہ گرمی (طہ : 118، 119) 79: اللہ تعالیٰ نے آدم کے لیے جنت کی ہر نعمت مباح کردی، سوائے اس درخت کے جس کا کھانا اللہ نے ان کے لیے ممنوع قرار دے دیا، تاکہ ان کے لیے اس ممنوع درخت کو کھانے کا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اور یہ ممانعت اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا اور اس درخت کے قریب ہونے سے منع کیا، اس سے کھانے کی حرمت میں مبالغہ مقصود ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ قرآن و سنت میں اس درخت کی تعیین نہیں آئی ہے، کسی نے کہا وہ گیہوں کا پودا تھا، کسی نے اسے انگور کا درخت کہا ہے، اور کسی نے انجیر کا، ممکن ہے انہی میں سے کوئی درخت ہو، بہرحال اس کے جان لینے سے سامع کو نہ کوئی مزید نفع پہنچ گا اور نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان۔ اس لیے اس کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ 80: یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آیت میں (نہی) تحریم کے لیے ہے۔ اس لیے کہ ممنوع درخت کو کھانے کا نتیجہ ظلم بتایا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ کے اوامر و نواہی کو استحباب و کراہت پر محمول کرنا بغیر کسی ایسی دلیل کے جائز نہیں جو واضح طور پر بتاتی ہو کہ یہ امر یا نہی استحباب یا کراہت کے لیے ہے۔