وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔
(23) نبی کریم (ﷺ) اور دیگر دعاۃ الی اللہ کو ایک بہت ہی اہم تعلیم دی گئی ہے اور اس کی ابتدایوں کی گئی ہے کہ اچھا عمل اور براعمل دونوں برابر نہیں ہو سکتے ہیں، اچھا عمل آدمی کو جنت تک پہنچاتا ہے اور فرشتوں کی صحبت کا سبب بنتا ہے اور برا عمل جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور شیاطین کی دوستی کا ذریعہ بنتا ہے، اس لئے اے میرے نبی ! اگر کوئی برائی آپ کے آڑے آئے، تو اچھائی کے ذریعہ اسے اپنے آپ سے دور کردیجیے، برائی کا جواب اچھائی سے، قصور کا جواب عفو و در گذر سے، غصہ کا جواب صبر سے، لغزش کا جواب نظر انداز کر کے اور دعوت کی راہ میں ایذا رسانیوں کو برداشت کر کے دیجیے آپ جب ایسا کریں گے تو دشمن دوست اور دور قریب کی طرح ہوجائیں گے۔ قاشانی لکھتے ہیں : جب آپ دشمن کی برائی کو کسی بہت ہی بہتر اچھائی کے ذریعہ دور کرسکتے ہیں، تو اس سے کم درجہ کی اچھائی کے ذریعہ اسے دور نہ کیجیے برائی کے ذریعہ اس کا دور کرناتو کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوگا، کیونکہ آگ کے شعلے اور بھڑک اٹھیں گے اور آپ اپنی خواہش اور شیطان کے پیرو کار ہوجائیں گے۔