لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ
کوئی شک نہیں کہ یقیناً تم مجھے جس کی طرف بلاتے ہو اس کے لیے کسی طرح پکارنا نہ دنیا میں (درست) ہے اور نہ آخرت میں اور یہ کہ یقیناً ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور یہ کہ یقیناً حد سے بڑھنے والے، وہی آگ میں رہنے والے ہیں۔
جن اصنام کی عبادت کی تم لوگ مجھے دعوت دیتے ہو، انہیں پکارنے کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہے کہ وہ ہماری تکلیفوں اور مصیبتوں کو دور کردیں گے اور ہماری ضرورتیں پوری کردیں گے، اور نہ ہی آخرت میں ہمارے سفارشی بن کر عذاب کو ٹال سکیں گے کیونکہ وہ تو پتھر ہیں ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کہیں بھی پکارے جانے کے حقدار نہیں ہیں، اس لئے کہ وہ مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرحال لوٹ کر اللہ کے پاس ہی جانا ہے، اور اس دنیا میں جو لوگ حد سے تجاوز کریں گے، اللہ کا انکار کریں گے، لوگوں پر ظلم کریں گے، بے گناہوں کا خون بہائیں گے، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ مرد مومن کی اس بات میں اشارہ تھا کہ فرعون اور اس کے پیروکار کفر و ظلم میں حد سے تجاوزکر گئے ہیں اور نبی اسرائیل کے بیٹوں کو ناحق قتل کرتے ہیں، اور یہ کہ موسیٰ کے قتل کا ارادہ ظلم میں حد سے بڑھ جانا ہے، جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔