سورة آل عمران - آیت 121

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب تو صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلا، مومنوں کو لڑائی کے لیے مختلف ٹھکانوں پر مقرر کرتا تھا اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

86۔ غزوات کے مؤرخین اور جمہور علماء کی رائے ہے کہ یہ آیت واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس واقعہ کے ساتھ غزوہ بدر کے ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فتح و نصرت اور شکست و ناکامی کے باب میں نظام الٰہی یہ ہے کہ صبر و تقوی کا نتیجہ نصرت و کامیابی ہوتی ہے، اور بے صبری اور عدم تقوی کا لازمی نتیجہ شکست و ناکامی ہوتی ہے اور اس کی مثال مسلمانوں کا ماضی قریب ہے، کہ میدان احد میں بے صبری اور حرص دنیا کا ثبوت دیا تو فتح کے بعد شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اور ان کے دشمنوں نے خوشی کے نغمے گائے، اور میدانِ بدر میں صبر و شکیب کا ثبوت دیا، اور تقوی اور تعلق باللہ کی راہ پر گامزن رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتحیاب کیا، اور ان کے ستر بڑے بڑے دشمن مارے گئے، اور ستر قیدی بنے، اور غنیمت کا بہت سا مال ان کے ہاتھ آیا۔ اس آیت سے جنگ احد کے واقعہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور تقریباً ساٹھ آیتوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعہ شوال 3 ہجری میں وقوع پذیر ہوا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ جنگ بدر میں جب قریش کے سرداران مارے گئے، اور رسوا کن شکست سے دوچار ہوئے، تو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے کفار قریش ابو سفیان کی قیادت میں تین ہزار کی تعداد میں جبل احد کے قریب آ کر جمع ہوگئے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے، کچھ لوگوں کی پہلی رائے تھی، عبداللہ بن ابی بن سلول رأس المنافقین کی بھی یہی رائے تھی۔ کچھ نوجوان اور پرجوش صحابہ کی رائے دوسری تھی، اور اس پر انہوں نے اصرار کیا، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسی دوسری رائے کے مطابق گھر کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آگئے، دوسری رائے والے صحابہ نے سمجھا کہ شاید ہم نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو مجبور کیا ہے، اس لیے انہوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو پہلی رائے پر عمل کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا نبی جب زرہ پہن کر گھر سے باہر آجاتا ہے تو اسے اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان اللہ تعالیٰ فیصلہ نہ کردے۔ چنانچہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک ہزار لشکر کے ساتھ جمعہ کے بعد جبل احد کی طرف روانہ ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی مقام ’ شوط‘ سے اپنے تین سو افراد کے ساتھ یہ بہانا بنا کر واپس آگیا کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی، لیکن جن تیر اندازوں کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جبل احد پر مقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ہمیں چڑیاں بھی اچک کرلے جائیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، انہوں نے مال غنیمت لوٹنے کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور خالد بن ولید نے اس طرف سے حملہ کردیا، اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی (تفصیل کے لیے دیکھئے زاد المعاد، ابن القیم رحمہ اللہ) بعض لوگوں نے غدوت کا معنی صبح کے وقت نکلنا کیا ہے، اور پھر یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ پھر یہ کیسے صحیح ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جمعہ کے بعد نکلے، صاحب فتح البیان نے لکھا ہے کہ بسا اوقات، غدو، مطلق خروج کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یہاں بھی غدوت، خرجت، کے معنی میں ہے، اس لیے اشکال باقی نہیں رہتا۔