اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
(27) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ خبر دی ہے کہ پوری کائنات میں وہی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے، وہی فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کی روحوں کو ان کے جسموں سے نکال لیتا ہے، جس کے بعد وہ قیامت تک کے لئے مر جاتے ہیں اور وہی انسانوں پر نیند طاری کرتا ہے، جس کے سبب اس کے ظاہری حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، پھر ان میں سے جسے اللہ دنیا سے اٹھا لینا چاہتا ہے، اسے واقعی موت دے دیتا ہے اور قیامت تک اس کی روح اس کے جسم میں لوٹ کر نہیں آئے گی، اور جس کی موت نہیں لکھی ہوتی اس کی روح لوٹ آتی ہے۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی بستر پر جائے تو اسے تہبند کے دامن سے جھاڑ دے، اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز اس پر آئی ہے۔ پھر کہے میرے رب ! میں اپنا پہلو تیرے نام کے ساتھ رکھتا ہوں اور تیری مدد سے اسے اٹھاؤں گا، اگر تو میری جان قبض کرلے تو اس پر رحم کرنا اور اگر دوبارہ اسے آنے دے تو اس کی اسی طرح حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ موت و حیات اور روح کے قبض کئے جانے اور جسم میں اس کے دوبارہ لوٹ آنے میں ان لوگوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ حقائق اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ جو ذات باری تعالیٰ ان باتوں پر قادر ہے، وہ یقیناً قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، اور وہی طاعت و بندگی کا تنہا مستحق ہے۔