قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
فرمایا اے آدم! انھیں ان کے نام بتا، تو جب اس نے انھیں ان کے نام بتا دیے، فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ بے شک میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔
73: تمام غیبی امور کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کے تمام غیبی امور کو جانتا ہے، انہی غیبی امور میں سے اللہ کا یہ علم بھی تھا کہ آدم (علیہ السلام) تمام اشیاء کا نام بتا دیں گے اور فرشتے عاجز رہیں گے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آگئی کہ آدم اور اس کی ذریت میں خلیفۃ الارض بننے کے جن اسباب و مبررات کو اللہ جانتا ہے وہ فرشتے نہیں جان سکتے، اور اس کا مشاہدہ بھی ہوگیا کہ آدم نے تمام چیزوں کے نام بتا دئیے جبکہ فرشتے عاجز رہے۔ 74: جب آدم (علیہ السلام) نے تمام اشیاء کے نام بتا دئیے، اور ان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت ہوگئی، تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ اس سجدہ سے مقصود آدم کی تعظیم، اور فرشتوں کی طرف سے ایک طرح کا اعتذار تھا اس بات پر جو انہوں نے آدم کے بارے میں کہی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آدم کی انتہائے تکریم تھی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں کہ : فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا اور ایسا اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسجدو الآدم کہا، الی آدم نہیں کہا اور ہر حرف کا ایک معنی ہوتا ہے، یعنی آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، آدم کی طرف رخ کر کے، اللہ کے لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یعنی شمس وقمر کو سجدہ نہ کرو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو۔ (فصلت : 37)۔ آگے چل کر لکھتے ہیں : سجدہ ایک تشریع ہے، اس کے بارے میں اللہ کے حکم کی اتباع کی جائے گی۔ اگر اللہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس کی کسی مخلوق کو سجدہ کریں تو ہم اس کے حکم کی اتباع کریں گے اور اس مخلوق کو سجدہ کریں گے۔ معلوم ہوا کہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اللہ کی بندگی اور اطاعت تھی۔ اور وہ آدم کے لیے تعظیم وتکریم کا اظہار تھا۔