وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور اس کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا، پھر اس نے رجوع کیا۔
(18) داؤد (علیہ السلام) کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) پر بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات کئے تھے، اس آیت کریمہ میں انہی انعامات کا ذکر ہے۔ امام ابن حزم نے ﴿فَتَنَّا سُلَيْمَانَ﴾ کا معنی یہ کیا ہے کہ ہم نے سلیمان کو حکومت و بادشاہی دے کر اپنے لئے ان کی طاعت و بندگی کو آزمایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا ہے : ﴿ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ﴾ ” موسیٰ نے کہا کہ اے اللہ ! یہ تو تیری آزمائش ہے، تو اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ معلوم ہوا کہ یہاں بھی فتنہ سے مراد امتحان ہے، یعنی اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو بادشاہی دے کر آزمایا تاکہ ان کی فضیلت ظاہر ہو۔ اس معنی کے سوا جتنی باتیں مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھی ہیں سب خرافات ہیں، جنہیں یہودی زندیقوں اور انہی جیسے دوسرے زندیقوں نے گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے اور وہ جسم جو سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا اس سے مقصود کیا ہے، اللہ کو ہی معلوم ہے قرآن میں جس طرح آیا ہے ہم اسی طرح اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے سچ کہا ہے اور یہ اللہ کا کلام ہے۔ اگر قرآن کی کسی آیت یا رسول اللہ (ﷺ) کی کسی صحیح حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی تو اسے قبول کرتے، لیکن اس طرح کی نہ کوئی آیت ہے اور نہ کوئی صحیح حدیث ہے، اس لئے محض ظن کی بنیاد پر کوئ بات کہنی اللہ پر افترا پردازی ہوگی اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ جسم ایک ” جن“ تھا جس نے سلیمان (علیہ السلام) کی صورت اختیار کرلی تھی، تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جھوٹ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے ایک رسول کو اس طرح بے آبرو نہیں کرے گا، اسی طرح ہم اس بات کو بھی بعید از حقیقت سمجھتے ہیں کہ وہ جسم ان کے ایک بیٹے کا تھا یہ اور اس طرح کی دوسری تمام روایات موضوع اور بے بنیاد ہیں۔ انتہی حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس قسم کی تمام روایات یہودیوں سے لی گئی ہیں اور ان میں سے ایک جماعت تو سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت کی قائل بھی نہیں تھی۔ اس لئے انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کے خلاف بہت افترا پردازی کی ہے۔ انتہی بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعے کو اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے کہ یہی واقعہ اس آیت کی تفسیر ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا میں آج کی رات اپنی نوے بیویوں سے جماع کروں گا، اور ہر ایک بیوی ایک بچہ جنے گی جو شہسوار ہوگا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا اور ان شاء اللہ نہیں کہا تو اس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ صرف ایک بیوی نے بچہ جنا جس کا آدھا دھڑ بے کار تھا، لوگوں نے اسے لا کر سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا۔