فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ
تو ہم نے اسے یہ بخش دیا اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس یقیناً بڑا قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔
اس لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے اور ان کے دل پر خشیت الٰہی کا ایسا غلبہ ہوا کہ سجدے میں گر کر رونے لگے اور پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہوگئے تو اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ آیت (25) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول (ﷺ) کو خبر دی ہے کہ داؤد کو ہم سے بہت قربت تھی اور وہ جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ داؤد (علیہ السلام) کا یہ فیصلہ ان کی حکمت و بالغ نظری اور فیصلوں میں ان کے صائب الرائے اور صریح ہونے پر دلالت کرتا ہے، انہوں نے کسی کی رعایت کئے بغیر حق بات کہی اور مدعی علیہ کی زیادتی کی صراحت کردی اس طرح مظلوم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور ظالم نے اپنا ظلم جان لیا اور سب نے یہ بھی جان لیا کہ عدل و انصاف ہر بات پر مقدم ہے اور یہ کہ اکثر لوگوں میں دوسروں پر زیادتی کرنے کی صفت پائی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں، جن کا خلاصہ دو مذاہب ہیں : پہلا مذہب یہ ہے کہ ان آیات میں ایک گناہ کی طرف اشارہ ہے جس کا داؤد (علیہ السلام) نے ارتکاب کیا تھا اور اللہ نے اسے معاف کردیا تھا ابن جریر وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ دو فرشتوں نے بصورت انسا ن آ کر ان کی غلطی پر انہیں متنبہ کیا تھا اور غلطی یہ تھی کہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس ننانوے بیویاں تھیں اور ایک آدمی کے پاس صرف ایک بیوی تھی جس پر داؤد (علیہ السلام) کی نگاہ پڑگئی اور اس سے شادی کرنی چاہی، اس لئے انہوں نے اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج دیا جہاں وہ قتل ہوگیا تو داؤد (علیہ السلام) نے اس عورت سے نکاح کرلیا اور جب انہوں نے دونوں آدمیوں کے درمیان فیصلہ کردیا اور وہ واپس چلے گئے تو انہیں پتہ چل گیا کہ یہ دونوں فرشتے تھے، جنہیں بھیج کر اللہ نے انہیں ان کی غلطی پر تنبیہ کی ہے، چنانچہ انہوں نے اللہ کے سامنے توبہ کی اور معافی ماگنی تو اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب (الفصل) میں لکھتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا قول ہے جو داؤد (علیہ السلام) پر سراسر بہتان اور منصب رسالت کے بالکل خلاف ہے۔ پھر انہوں نے اس کی بھرپور تردید کی ہے۔ دوسرا مذہب (جس کے صحیح ہونے کی ابن حزم نے زبردست تائید کی ہے) یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس آنے والے دو فرشتے نہیں، بلکہ انسان تھے اور ان کا جھگڑا واقعی بکریوں کے بارے میں ہی تھا اور جن لوگوں نے کہا ہے کہ وہ دونوں فرشتے تھے اور مقصود عورتوں کی طرف اشارہ کرنا تھا، انہوں نے اللہ پر افترا پر دازی کی ہے۔ حافظ ابن حزم کے اس قول کی تائید حافظ ابن کثیر کے قول سے بھی ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ مفسرین نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور اس کی تفصیل کا علم اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے، اس لئے کہ قرآن حق ہے اور اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ہے۔