قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
اس نے کہا بلاشبہ یقیناً اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقیناً ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کرلیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گرگیا اور اس نے رجوع کیا۔
داؤد (علیہ السلام) نے کہا : اس نے تمہاری بکری مانگ کر تم پر زیادتی کی ہے، اس لئے کہ ننانوے بکریوں کے رہتے ہوئے تمہاری بکری زبردستی لینے کی اسے ضرورت نہیں تھی، مزید کہا کہ بہت سے شرکاء اسی طرح اخوت و صداقت کا پاس نہیں رکھتے اور زیادتی کر بیٹھتے ہیں حالاانکہ برادری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے بھائی کو اپنے آپ پر ترجیح دیں البتہ جو لوگ ایمان و تقویٰ والے ہوتے ہیں وہ ایسی زیادتی نہیں کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں دونوں کے واپس چلے جانے ک بعد داؤد (علیہ السلام) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ قضیہ اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا،