وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ
اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔
آیات (112، 113) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی جو بڑے ہو کر صالح اور نبی ہوں گے اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر اپنی برکتیں نازل کردیں، یعنی ان کی اولاد میں کثرت ہوگی ان میں انبیاء کا سلسلہ جاری رہے گا ان میں کچھ لوگ بادشاہوں گے اور ہم انہیں ایسی نعمتیں دیں گے جو دوسروں کو نہیں ملیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ ابراہیم و اسحاق کی اولاد میں کچھ تو مومنین صالحین ہوں گے اور کچھ لوگ کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر کھلا ظلم کرنے والے ہوں گے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ ذبیح کون تھے۔ اسماعیل یا اسحاق قرطبی اور کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اسحاق تھے، لیکن راجح یہی ہے کہ وہ اسماعیل تھے، یہ یہودی و نصاریٰ کی کار ستانی ہے کہ انہوں نے جھوٹی روایات گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلا دیا، تاکہ نبی کریم (ﷺ) سے ” ابن الذبیحین“ یعنی دو ذبیحوں، اسماعیل اور عبداللہ کا بیٹا ہونے کا شرف چھین لیں، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” زاد المعاد“ میں لکھا ہے کہ صحیح قول کے مطابق صحابہ و تابعین اور دیگر علمائے اسلاف کے نزدیک ذبیح اسماعیل ہیں، اسحاق کا ذبیح ہونا بیس وجوہات سے باطل ہے، آگے لکھا ہے میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیمہ رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ یہ قول یہود و نصاریٰ سے لیا گیا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ خود ان کی کتاب کے نص کے ذریعہ باطل ہے تو رات میں ہے، اللہ نے ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کریں اور اہل کتاب اور مسلمان سبھی جانتے ہیں کہ اسماعیل ہی ان کے اکلوتے تھے اسحاق کو ذبیح کہنے والوں کو اس بات سے دھوکہ ہوا ہے کہ ان کے پاس موجود تورات میں ہے کہ (آپ اپنے بیٹے اسحاق کو ذبح کیجیے) حالانکہ یہ جھوٹ اور یہود کی تحریف ہے، اس لئے کہ یہ ذبیح کے اکلوتا ہونے سے متعارض ہے۔ یہود نے حسد کرتے ہوئے یہ افترا پردازی کی تاکہ اولاد اسماعیل کہ یہ شرف حاصل نہ ہو۔ اسحاق ذبیح کیسے ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ام اسحاق کو اسحاق اور یعقوب کی بشارت ایک ساتھ دی تھی : ﴿فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ﴾ ” ہم نے سارہ کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد ان کے بیٹے یعقوب کی۔“ یہ بات محال ہے کہ انہیں اسحاق کے بیٹے یعقوب کی بشارت دی جائے پھر اسحاق کو ذبح کرنے کا حکم دیا جائے۔ شیخ الاسلام آگے چل کر کہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذبح مکہ میں تھے اسی لئے تو دس تاریخ کو قربانی صفا و مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمار جیسے اعمال حج ذبیح اور ان کی ماں کی یاد میں مکہ مکرمہ میں ادا کئے جاتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مکہ میں اسماعیل اور ان کی ماں ہاجرہ تھیں نہ کہ اسحاق اور ان کی ماں سارہ اور یہی وجہ ہے کہ ذبح کرنے کی جگہ اور زمانہ (بیت حرام) سے وابستہ ہے جسے ابراہیم و اسماعیل نے بنایا تھا اور مکہ میں قربانی کرنا حج بیت اللہ کے شعائر میں سے قرار پایا، جسے دونوں باپ بیٹے نے بنایا تھا، اگر ذبح کرنے کا عمل شام میں ہوا ہوتا تو حج پر قربانی کے شعائر مکہ کے بجائے شام میں ادا ہوتے۔