وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ
` اور ان کے لیے بستی والوں کو بطور مثال بیان کر، جب اس میں بھیجے ہوئے آئے۔
9 -نبی کریم (ﷺ) سے کہا گیا ہے کہ وہ کفار قریش کو ایک بستی والے کا قصہ سنا دیں، جہاں کے رہنے والوں نے کفر و شرک پر اسی طرح اصرار کیا تھا جس طرح یہ لوگ کر رہے ہیں اور اللہ کے رسولوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا تھا جیسا یہ لوگ آپ کے ساتھ کر رہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چیخ کے ذریعہ ہلاک کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان قریشیوں کا انجام بھی اسی بستی والوں جیسا ہو۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ تمام مفسرین کے نزدیک وہ بستی ” انطاکیہ“ تھی اور مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” رسولوں“ سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین تھے، جنہیں انطاکیہ والوں کو دعوت توحید دینے کے لئے بھیجا گیا تھا، ابن عباس، قتادہ، عکرمہ، کعب الاحبار اور وہب بن منبہ وغیرہم سے یہی مروی ہے۔ لیکن بہت سے قدیم و جدید مفسرین کے نزدیک یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ بلکہ عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے ماخوذ ہے۔ ان میں سرفہرست حافظ ابن کثیر اور جمال الدین قاسمی ہیں، جن کا خیال ہے کہ وہ بستی انطاکیہ نہیں کوئی اور تھی جس کا نام اور زمانہ صحیح روایات سے معلوم نہیں ہے اس لئے کہ انطاکیہ وہ پہلا شہر ہے جہاں کے رہنے والے سب سے پہلے عیسیٰ علیہ اسلام پر ایمان لائے تھے اسی طرح قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بتاتے ہیں کہ جو لوگ اس بستی والوں کو دعوت توحید دینے گئے تھے وہ اللہ کے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث کیا تھا۔ اگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ہوتے تو قرآن کریم کی عبارت اسی کے مطابق ہوتی اور ان کی بات رد کرتے ہوئے بستی والے یہ نہیں کہتے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، ان رسولوں نے بستی والوں سے کہا ہوگا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں، تو کافروں نے ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسا ن ہو، یعنی تم نبی نہیں ہو۔