ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ
پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔
آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اس کتاب کا وارث امت محمدیہ کو بنایا، جنہوں نے صحابہ کرام کے زمانے سے ہر دور میں اسے پڑھا، سمجھا اور دنیا والوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن عمل کے اعتبار سے یہ وارثین قرآن کریم تین طبقوں میں بٹ گئے ایک طبقہ نے اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کی اور بعض کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا، دوسرے طبقہ نے واجبات ادا کئے، محرمات سے اجتناب کیا، لیکن بعض مکروہات کا ارتکاب کیا اور بعض مستحبات کی ادائیگی میں سستی کی، اور تیسرے طبقہ نے اللہ کی توفیق سے فرائض و نوافل ادا کئے اور کبائر و صغائر سے اجتناب کیا۔