وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور دو سمندر برابر نہیں ہوتے، یہ میٹھا پیاس بجھانے والا ہے، جس کا پانی آسانی سے گلے سے اترنے والا ہے اور یہ نمکین ہے کڑوا اور ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زینت کا سامان نکالتے ہو جو تم پہنتے ہو اور تو اس میں کشتیوں کو دیکھتا ہے پانی کو چیرتی ہوئی چلنے والی ہیں، تاکہ تم اس کے فضل میں سے (حصہ) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔
10 -اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت وضاعی کی ایک مثال پیش کی ہے، کہ اس نے دو قسم کے سمندر پیدا کئے ہیں، دیکھنے میں دونوں کا پانی بالکل ایک جیسا ہے، لیکن ایک کا پانی میٹھا اور مزے دار ہے، حلق سے نیچے آسانی کے ساتھ اتر جاتا ہے اور دوسرے کا پانی نمکین اور کھارا ہے کوئی اسے حلق سے نیچے نہیں اتار سکتا ہے اور دونوں قسم کے سمندروں میں اللہ نے ایسی مچھلیاں پیدا کی ہیں جو کھانے میں بہت لذیذ ہوتی ہیں اور کھارے پانی والے سمندر میں لؤ لؤ اور مر جان پیدا ہوتے ہیں جنہیں عورتیں زینت کے لئے بطور زیور استعمال کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سمندروں کا پانی ایسا بنایا ہے کہ ان میں کشتیاں نہیں ڈوبتیں اور بسہولت تمام تیرتی ہوئی ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی ہیں اور وہ انسانوں کے لئے تلاش رزق کا سبب اور ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ نعمتیں اللہ نے اس لئے دی ہیں تاکہ اس کے بندے ان سے مستفید ہوں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس مثال سے مقصود مومن و کافر اور ایمان و کفر کے درمیان فرق بتانا ہے کہ جس طرح دونوں سمندر دیکھنے میں یکساں ہیں، لیکن ذائقہ میں ایک کا پانی دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی طرح مومن و کافر دیکھنے میں ایک ہی جیسے انسان ہیں، لیکن ایمان و کفر کی وجہ سے دونوں کے درمیان مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ واللہ اعلم