مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہوگی۔
8 -دنیا و آخرت دونوں جہان میں عزت طلبی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طاعت و بندگی میں لگا رہے، اس لئے کہ دنیا و آخرت کا وہی مالک ہے۔ ہر طرح کی عزت و آبرو اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو متعدد آیات میں بیان کیا ہے۔ سورۃ النساء آیت 139 میں ہے، ﴿أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا﴾اور سورۃ یونس آیت 65 میں ہے : ﴿وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا﴾ ان دونوں آیتوں میں یہی بتایا گیا ہے کہ عزت و آبرو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ آیت میں ﴿الْكَلِمُ الطَّيِّبُ﴾ سے مراد ہر وہ قول و عمل ہے جو ذکر الٰہی کے ضمن میں آتا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو فرشتے ان کلمات ذکر کو لے کر اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ امام شوکانی نے ایک مفہوم یہ بھی لکھا ہے کہ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرتا ہے، اور اس کا اسے اچھا اجر دیتا ہے۔ اور ذکر الٰہی عمل صالح کے ذریعہ ہی اللہ تک پہنچتا ہے، اگر بندہ فرائض کی پابندی اور دیگر نیک اعمال کرتا ہے تو اس کے اذکار و اوراد کو پر لگ جاتے ہیں اور وہ اللہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو شخص فرائض کی پابندی نہیں کرتا، اس کے اذکار اس کے منہ پر مار دیئے جاتے ہیں۔ آیت کے آخر میں ﴿يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں کہ یہاں ریا کار لوگ مراد ہیں ! ابوالعالیہ کا خیال ہے کہ ان سے مراد وہ کفار مکہ ہیں جنہوں نے دار الندوہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف سازش کی تھی، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہیں گے اور ریا کار کی ریاکاری لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر رہے گی۔