قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم ۖ بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِينَ
وہ لوگ جو بڑے بنے تھے، ان لوگوں سے جو کمزور سمجھے گئے، کہیں گے کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، اس کے بعد کہ وہ تمھارے پاس آئی ؟ بلکہ تم مجرم تھے۔
27 -میدان محشر اور اس کے بعد کے مواقف میں کفار کا کیا حال ہوگا، اسے بیان کر کے انہیں اسی دنیا میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، شاید کہ ایمان لے آئیں نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ کافروں کی بے کسی کا کیسا منظر ہوگا جب وہ رب العالمین کے سامنے ذلیل خوار بن کر کھڑے ہوں گے اور اپنا تاریک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جب کچھ نہ بن پڑے گا تو آپس میں جھگڑیں گے اور دنیاوی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے کمزور کفار جنہوں نے دنیا میں کفر کے سرغنوں کی پیروی کی تھی اور ایمان نہیں الئے تھے، ان سرغنوں سے کہیں گے کہ اگر تم نے ہمیں ایمان لانے سے نہ روکا ہوتا تو ہم نے اسلام کو قبول کرلیا ہوتا اور آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا تو وہ سردار ان کفر ان کے دعوے کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نے تمہیں اتباع حق سے کبھی نہیں روکا تھا، تم لوگ خود ہی اہل جرم و فساد تھے، اسی لئے جب ہم نے تمہیں اپنی پیروی کے لئے پکارا تو تم نے فوراً ہماری دعوت قبول کرلی اور اپنی خواہش کی اتباع کرتے ہوئے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرا دیا، یہ سن کر پیروی کرنے والے کفار کہیں گے کہ بات وہی سہی ہے جو ہم نے کہی ہے تم لوگ تو رات دن اللہ اور اس کے رسول کے خلاف سازش کرتے رہے اور اپنی سرداری اور چودھراہٹ کا رعب گانٹھ کر ہمیں حکم دیتے رہے کہ اس کے دین کا انکار کردیں اور جھوٹے معبودوں کو اس کا شریک بنائیں۔