فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔
(11) ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کو خبر دی گئی کہ اب ان کی موت کا وقت آچکا ہے تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب ! میری موت کی خبر جنوں سے چھپا دے، تاکہ لوگ جان لیں کہ ” جن“ غیب کی کوئی بات نہیں جانتے، چنانچہ انہوں نے ایک لاٹھی پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنی شروع کردی اور اسی حال میں ان کی موت آگئی اور جن کام کرتے رہے اور انہیں ایک مدت تک اس کی خبر نہ ہوئی، جب اللہ نے چاہا تو دیمک نے ان کی لاٹھی کو نیچے سے کھالیا اور سلیمان (علیہ السلام) کا جسم زمین پر گرگیا ، تب جنوں کو ان کی موت کی خبر ہوئی اور کہنے لگے کہ اگر انہیں غیب کا علم ہوتا تو ایک مدت سے عذاب میں نہ رہتے۔ مفسرین لکھتے ہیں، سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جن غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اس آیت میں اسی کی تردید کی گئی ہے۔