أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
تو کیا انھوں نے اس کی طرف نہیں دیکھا جو آسمان و زمین میں سے ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے، اگر ہم چاہیں انھیں زمین میں دھنسا دیں، یا ان پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دیں۔ یقیناً اس میں ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے ضرور ایک نشانی ہے۔
7 -منکرین قیامت کے اندر یہ گمراہ کن جرأت اس لئے پیدا ہوئی کہ انہوں نے کبھی آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں غور کیا ہی نہیں کہ جسے قادر مطلق نے ان عظیم و مہیب مخلوقات کو پیدا کیا ہے جو انسانوں کو ان کے آگے اور پیچھے سے بلکہ ہر چہار جانب سے گھیرے ہوئے ہیں، کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان سے نہایت چھوٹی مخلوق یعنی ابن آدم کو دوبارہ زندہ کرسکے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں : ایک یہ کہ جو اللہ آسمان اور زمین کی تخلیق پر قادر ہے وہ یقیناً اس پر قدرت رکھتا ہے کہ ان سے چھوٹی مخلوق یعنی انسان کو دوبارہ پیدا کرے سورۃ یس آیت 81 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ﴾ ” کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، وہ انہی جیسا دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، وہ یقیناً اس پر قادر ہے“ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس قادر مطلق نے ایسے مہیب آسمان و زمین پیدا کئے ہیں جو انسانوں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں وہ اس پر بھی قادر ہے کہ منکرین قیامت پر جلد ہی کوئی عذاب نازل کر دے، چاہے تو قارون کی طرح انہیں زمین میں دھنسا دے اور چاہے تو آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا ان کے سروں پر دے مارے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمان و زمین کی تخلیق، ان کا انسانوں کو ہر چہار جانب سے گھیرے ہوئے ہونا، اور اللہ کی اس بات پر قدرت کا ملہ کہ وہ چاہے تو زمین یا آسمان کی جانب سے ان پر کوئی عذاب مسلط کر دے، ان سب باتوں میں غور و فکر سے اللہ کے ان بندوں کو عبرت ملتی ہے جو اپنے رب سے اپنا تعلق جوڑے رکھتے ہیں۔