يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے اسے اس سے پاک ثابت کردیا جو انھوں نے کہا تھا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔
53 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی عیب جوئی کر کے انہیں تکلیف پہنچائی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردیا کہ وہ لوگ ان میں جو عیب لگا رہے تھے اس سے وہ بالکل پاک تھے، یعنی اے مسلمانو ! تم بھی اپنے رسول کو ایذا نہ پہنچاؤ، جیسا کہ بعض منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں نے زید بن حارثہ اور زینب بنت جحش کی شادی، طلاق اور پھر زینب کی رسول اللہ (ﷺ) سے شادی کے واقعے کا ذکر کر کے آپ (ﷺ) پر طعن و تشنیع کیا تھا۔ بنی اسرائیل کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ایذا رسانی کا واقعہ امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بہت ہی شرمیلے انسان تھے، اپنے جسم کا بہت ہی سخت پردہ کرتے تھے، بنی اسرائیل کے لوگ سمجھتے تھے کہ موسیٰ کے جسم میں ضرور کوئی عیب ہے جس کی وجہ سے اپنے جسم کا اتنا سخت پردہ کرتے ہیں ایک دن نہانے کے لئے گئے، تو اپنا کپڑا ایک پتھر پر رکھ دیا۔ وہ پتھر اللہ کے حکم سے ان کا کپڑا لے کر بھاگتا گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچ گئے لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نہ برص کی بیماری تھی نہ ہی کوئی دوسرا جسمانی عیب۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو گونا گوں تکلیفیں پہنچائیں، ان کی عیب جوئی کی، ان کے ساتھ بے ادبی کی اور ان پر جھوٹے اتہامات لگائے تو رات کا مطالعہ کرنے سے ان باتوں کی تفصیلات ملتی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ و دعوت کی راہ میں ان تمام تکلیفوں کو برداشت کیا اسی آیت سے مشابہ سورۃ الصف کی آیت (5) ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾ ” جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو، حالانکہ تمہیں بخوبی معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں، پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو اور ٹیڑھا کردیا اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے“ ہمارے نبی کریم (ﷺ) کو بھی منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں نے طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر (خاکم بدہن) بدکاری کا اتہام دھرا، ایک بار مال غنیمت تقسیم کرتے وقت ایک انصاری نے کہہ دیا کہ یہ وہ تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہیں ہے اور زید و زینب کا واقعہ اوپر گذر چکا آپ (ﷺ) نے بھی دعوت و تبلیغ کی راہ میں ساری تکلیفیں گوارہ کیں تو اللہ نے آپ کا مقام اونچا کیا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا۔ فائدہ : ابن جریر طبری نے ﴿وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا﴾ کی تفسیم کے ضمن میں لکھا ہے کہ موسیٰ اپنے رب سے جو کچھ مانگتے، ان کی سفارش قبول کی جاتی تھی، ان کا ان کے رب کے نزدیک طاعت و بندگی کی وجہ سے بڑا مقام تھا اور بڑے صاحب جاہ تھے، یعنی وہ اللہ سے اپنی قوم کے لئے جو کچھ ماگنتے اللہ اپنافضل اور اپنی عنایت کرتے ہوئے ان کی مانگ کو پوری کرتا تھا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ عامتہ الناس اور بہت سے علم کے جھوٹے دعویداروں نے، انبیائے کرام کا اپنے رب کے نزدیک صاحب جاہ ہونے کو بہانہ بنا کر ان سے قضائے حاجت کی دعا کو جائز قرار دیا ہے۔ اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی یا ولی کی خواہش کے مطابق اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت میں تبدیلی آجاتی ہے اور اللہ کے نزدیک ان کا وسیلہ اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے حکام دنیا کے پاس بڑے لوگوں سے سفارش کرائی جاتی ہے۔ یہ اعتقاد، عقیدہ توحید کے سراسر منافی ہے، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے والا نہیں ہے، اس لئے اس کے سوا کسی کو کسی بھی حیثیت میں پکارنا صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کا اللہ کے نزدیک تمام انبیاء سے اونچا مقام ہے، لیکن وہ انسانوں کے لئے نفع، نقصان اور رشد و ہدایت کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور صرف عمل صالح کا ہی وسیلہ جائز اور صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿اللَّهُ الصَّمَدُ﴾” صمد“ حاجت روا کو کہتے ہیں، جس کے پاس بندے مدد طلب کرنے کے لئے جاتے ہیں اور آیت میں خبر کا معرف بالام ہونا، حصر کا فائدہ دیتا ہے، یعنی صرف اللہ کی ذات حاجت روا ہے، اس کے سوا سب اس کے بندے اور غلام ہیں اس مضمون کی صراحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 186 میں کردی ہے، فرمایا : ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ)﴾ ” اگر میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ “