إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔
(46) مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کو ایذا دینے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو اس کا بیٹا یا شریک بتایا جائے، یا کسی بھی حیثیت سے اسے عاجز سمجھا جائے، یا حیوانات کا مجسمہ بنا کر صفت خلق میں اس کی مشابہت اختیار کی جائے اور رسول اللہ (ﷺ) کو ایذا پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کو کوئی گالی دے، آپ کی عیب جوئی کرے، آپ پر اور آپ کے گھرانے پر طنز و تعریض کرے۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے صفیہ (رض) سے رسول اللہ (ﷺ) کی شادی کے موقع پر آپ (ﷺ) پر طعن و تشنیع کیا تھا صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس آیت کا زینب بنت جحش کی شادی کے واقعے سے زیادہ تعلق ہے۔ آپ (ﷺ) نے جب ان سے شادی کی تو منافقین نے خوب باتیں بنائی تھیں کہ محمد نے اپنے بیٹے زید کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے۔