لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو!) اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔
(44) یہاں ان رشتہ داروں کا ذکر ہے جن سے رسول اکرم (ﷺ) کی بیویوں اور دیگر مسلمان عورتوں کے لئے پردہ ضروری نہیں ہے اور جن سے بغیر پردہ کئے بات کرنا جائز ہے، باپ سے مراد باپ، دادا اور پردادا، بیٹوں سے مراد بیٹے اور ان کے بیٹے اور بیٹیوں کے بیٹے، اور بھائیوں کے بیٹوں اور بہنوں سے مراد پوتے بھی ہیں اور ” عورتوں“ سے مراد ایک رائے کے مطابق صرف مسلمان عورتیں ہیں اور دوسری رائے یہ ہے کہ ﴿وَلَا نِسَائِهِنَّ﴾ میں اضافت سے صرف جنس عورت کی طرف اشارہ ہے، اس لئے مسلمان اور اہل کتاب عورتوں سے مسلمان عورتوں کا پردہ نہیں ہے۔ ﴿وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ﴾سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ عورت کا غلام اس کا محرم ہے اور بعض کا خیال ہے کہ عورت کا غلام اس کے لئے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں صرف لونڈیاں مراد ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لئے نہیں آیا ہے کہ وہ دونوں باپ کے برابر ہیں مذکورہ بالا احکام بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو نصیحت کی کہ وہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتی رہیں، ان کے لئے جو حدیں مقرر کی گئی ہیں ان سے تجاوز نہ کریں، غیروں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں اور پردہ کرنا نہ چھوڑ دیں کہ غیر محرم مردوں کی نگاہیں ان پر پڑیں اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اور دیگر تمام انسانوں کے اعمال و حرکات کو دیکھ رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن وہ ان کے خلاف شاہد بن جائیں اور ہلاکت و بربادی ان کا انجام بن جائے۔