قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
کہہ دے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان برابر ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے۔ پھر اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں۔
51۔ اس آیت میں مخاطب یہود و نصاری اور عام لوگ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو تین باتوں کی طرف بلائیں۔ اول یہ کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں۔ دوم یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور سوم یہ کہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کرانسانوں کے بنائے ہوئے قانون اور ان کی تحلیل و تحریم کے احکام کو نہ مانیں۔ بخاری، مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھ سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہر قل نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خط منگایا اور اسے پڑھا، تو اس میں یہ تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے ہر قل ” عظیم روم“ کے نام، سلام ہو اس پر جو راہ حق کی اتباع کرے، امابعد ! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کرلو، سلامتی پالو گے، اللہ تمہیں دوگنا اجر دے گا، اور اگر روگردانی کی تو اریسیوں کا گناہ تمہارے سر ہوگا، خط میں اس کے بعد یہی آیت سے لے کر تک تھی، تو گویا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے شاہ روم کو بھی دعوت اسلام کے بعد آیت کریمہ میں مذکورہ تینوں باتوں کی طرف بلایا تھا۔ ، میں مسیح و عزیر کی الوہیت کا انکار ہے، اور اشارہ ہے کہ یہ لوگ ہماری اور تمہاری طرح انسان تھے معبود کیسے بن گئے؟ اور اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جنہوں نے اللہ کا دین حاصل کرنے میں لوگوں کی اندھی تقلید کی، اور ان کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور ان کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانا، اور اس طرح انہیں اپنا معبود بنا لیا، امام ترمذی نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قرآن کریم کی آیت پڑھی۔ اور کہا کہ وہ لوگ ان علماء کی عبادت نہیں کرتے، لیکن وہ علماء جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کردیتے تو اسے حلال سمجھتے، اور جب کسی چیز کو حرام کردیتے تو اسے حرام سمجھتے، اللہ نے ان کے اس فعل کو انہیں معبود بنا لینے کے مترادف قرار دیا۔ مفسر الکیا الہراسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو بغیر کسی دلیل شرعی کے استحصان کے قائل ہیں اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو یہ کہتے ہیں کہ تحلیل و تحریم میں بغیر دلیل شرعی بیان کیے امام کا قول قبول کرنا واجب ہے