وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا
اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔
(19) غزوہ احزاب کے موقع سے یہود و منافقین کی حالت بیان کرنے کے بعد اب مومنین مخلصین کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ جب انہوں نے لشکر کفار کو ہر طرف سے آتا دیکھا تو کہنے لگے کہ ہمارے رب نے تو ہمیں اس کی خبر پہلے سے دے رکھی ہے کہ جب ہم ہر طرف سے گھیر لئے جائیں گے اور ہمارا اضطراب اور ہماری پریشانی انتہا کو پہنچ جائے گی، اس وقت ہم اپنے رب سے مدد مانگیں گے اور اس کے سامنے گریہ وزاری کریں گے تو اس کی مدد آئے گی اور ہمیں فتح و نصرت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (214) میں فرمایا ہے : ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ﴾ ” کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے“ اور نبی کریم (ﷺ) نے بھی خبر دی ہے کہ پہلے مسلمان آزمائے جائیں گے، پھر اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اللہ اور اس کے رسول کی خبر کی صداقت ظاہر ہو کر رہی کہ دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی اور بغیر جنگ کے مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ہوئی اور اس موقعہ سے مسلمانوں کو جو بھی پریشانیاں لاحق ہوئیں اور منافقوں کا گھناؤنا کردار سامنے آیا، ان ساری باتوں سے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہوا اور انہوں نے اللہ کی تقدیر کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور صبر و شکیبائی کے ساتھ اسے برداشت کیا۔