يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔
(7) آیات (9) سے (27) تک غزوہ احزاب اور غزوہ بنو قریظہ کے حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں اور اس سے مقصود مومنوں کو اللہ کی ایک عظیم نعمت کی یاد دلا کر نصیحت کرنی ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں، جس کا عملی تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں، ہر حال میں اس کے رسول کی اتباع کریں اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر کسی دوسری چیز کو مقدم نہ کریں۔ ان آیات کی تفسیر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن القیم کی کتاب (زاد المعاد) سے مدد لیتے ہوئے مذکورہ بالا دونوں غزوات پر اختصا رکے ساتھ روشنی ڈالی جائے، تاکہ ان آیات میں مذکور جزئیات کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ غزوہ احد ٣ ھ سے واپسی کے وقت مشرکین مکہ نے رسول اللہ (ﷺ) کو دھمکی دی کہ آئندہ سال پھر ہمارا اور تمہارا مقابلہ ہوگا، لیکن خشک سالی کی وجہ سے دوسرے سال مشرکین مکہ جنگ کے لئے نہیں نکلے حیی بن اخطب یہودی نے اہل قریش کی اس دھمکی کو غنیمت جانا اور رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانوں سے، شہر مدینہ سے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اتنقام لینے کا موقع مناسب سمجھا اس لئے وہ کئی دیگر سردار ان یہود کو لے کر مکہ گیا اور کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور ان کے شانہ بشانہ جنگ کرنے کا وعدہ کیا اس کے بعد وہ لوگ قبیلہ غطفان اور دیگر قبائل عرب سے بھی جا کر ملے اور انہیں بھی اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی، تاکہ سب مل کر مسلمانوں کا وجود ہی ختم کردیں۔ رسول کریم (ﷺ) کو جب ان حالات کا علم ہوا، تو دفاعی تدبیروں پر غور و فکر کرنے کے لئے صحابہ کرام کو جمع کیا اور سلمان فارسی (رض) کی رائے پر عمل کرتے ہوئے مسلح پہاڑی کے مشرق میں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا، جدھر سے کافروں کے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ڈر تھا تقریباً ایک ماہ کی مدت میں خندق کی کھدائی پوری ہوجانے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) تین ہزار مجاہدین کے ساتھ وہاں پہنچ گئے، جب کافروں کا لشکر وہاں پہنچا جن کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی تو خندق دیکھ کر حیرت زندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ جنگی چال تو عرب نہیں جانتے تھے اور اسی سے ان کی ہمت ایک گونہ پست ہوگئی۔ حیی بن اخطب یہودی سر دار بنی نضیر مکہ سے واپس آنے کے بعد بنو قریظہ کے پاس گیا اور بڑی کوششوں کے بعد انہیں رسول کریم (ﷺ) کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑنے پر آمادہ کرلیا۔ آپ (ﷺ) کو جب ان کے نقض عہد کی اطلاع ملی تو چند صحابہ کرام کو حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا جب انہوں نے واپس آکر اس خبر کی تصدیق کردی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ اکبر ! مسلمانو ! تمہیں خوشخبری دیتا ہوں تب مسلمانوں کی آزمائش کی شدید گھڑی آن پہنچی اور منافقوں نے برملا اپنے نفاق کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ قبیلہ بنی حارثہ کے بعض افراد نے رسول اللہ (ﷺ) سے یہ کہہ کر مدینہ واپس چلے جانے کی اجازت مانگی کہ ہمارے مکانات غیر محفوظ ہیں، اسی طرح قبیلہ بنی سلمہ نے بھی وہاں سے نکل جانے کا ارادہ کرلیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثبات قدمی عطا کی۔ مشرکین نے وہاں ایک ماہ تک قیام کیا، لیکن خندق کی وجہ سے جنگ نہ ہوسکی، البتہ قریش کے چند گھوڑ سوار خندق کے ایک تنگ حصے سے گذر کر آگے بڑھے، جن میں عمرو بن عبدود قریشی پیش پیش تھا، رسول اللہ (ﷺ) نے اس کے مقابلے کے لئے علی بن ابی طالب (رض) کو حکم دیا اور انہوں نے اسے قتل کردیا تو باقی گھوڑ سوار ڈر کے مارے واپس چلے گئے۔ رسول کریم (ﷺ) نے جب دیکھا کہ محاصرے کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے اور دشمن واپس جانے کا نام نہیں لے رہے ہیں تو آپ (ﷺ) نے قبیلہ غطفان کے دونوں سردار عسینیہ بن حصن اور حارث بن عوف سے مدینہ کے ایک تہائی پھلوں کے عوض صلح کی پیشکش کردی جب سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سردار ان اوس و خزرج کو اس کی اطلاع ملی تو کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ کو اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے تو سرتسلیم خم ہے اور اگر یہ آپ کی ذاتی تدبیر ہے تاکہ ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت کریں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے جب ہم اور وہ قبائل کفر و شرک پر تھے، تب تو انہوں نے کبھی ہم سے ایسی امید نہیں کی، اور اب جبکہ اللہ نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا ہے اور آپ کے ذریعہ ہمیں عزت دی ہے تو ہم کسی حال میں بھی اپنا مال انہیں نہیں دیں گے ہمارا اور ان کا فیصلہ تلوار کرے گی۔ آپ (ﷺ) ان کی بات سن کر خوش ہوئے، اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہی میری ذاتی تدبیر تھی جب میں نے دیکھا کہ سارے عرب مل کر ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں تو یہ بات ذہن میں آئی تھی۔ اس کے بعد اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قبیلہ غطفان کا ایک شخص نعیم بن مسعود بن عامر رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مسلمان ہوگیا ہوں۔، آپ مجھے جو چاہئے حکم دیجیے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جنگ دھوکے کا نام ہے۔ اس لئے تم کفار اور یہود کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرو چنانچہ وہ صحابی پہلے بنو قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ ان کا پہلے سے تعارف تھا اور کہا کہ اگر اہل مکہ کی شکست ہوئی تو وہ مکہ واپس چلے جائیں گے اور تم لوگ ” محمد“ کو اپنا دشمن بنا لو گے انہوں نے پوچھا کہ پھر کیا کیا جائے؟ نعیم نے کہا جب تک وہ لوگ اپنے کچھ افراد تمہارے پاس بطور رہن نہ رکھ دیں، ان کے ساتھ مل کر جنگ نہ کرو پھر قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارا دوست اور خیر خواہ ہیں مجھے خبر لمی ہے کہ بنو قریظہ والے محمد کے ساتھ اپنا عہد توڑنے پر نادم ہیں اور اس کے ساتھ یہ بات طے کرلی ہے کہ وہ تمہارے کچھ لوگوں کو تم سے بطور رہن لے کر اس کے حوالے کردیں گے اور اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے، قبیلہ غطفان والوں سے بھی ایسی ہی بات کی۔ کفار مکہ نے سنیچر کے دن یہود بنی قریظہ کو خبر بھیجی کہ اب ہمارے لئے یہاں زیادہ دیر تک قیام کرنا مشکل ہے، اس لئے آؤ، آج ہی ہم سب ایک ساتھ مل کر محمد اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کردیں یہودیوں نے کہا کہ آج تو سنیچر کا دن ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے آباؤ واجداد نے اس دن کی بے حرمتی کر کے اللہ کی کیسی سزا بھگتی تھی دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ جب تک ہمارے پاس اپنے کچھ افراد بطور رہن نہیں رکھو گے، ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے قریش والوں نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ نعیم نے سچ کہا تھا اور اپنے کچھ افراد نہیں بطور رہن دینے سے انکار کردیا۔ یہودیوں نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ نعیم نے ٹھیک ہی کہا تھا چنانچہ قریش اور بنو قریظہ دونوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ کا مسلمانوں پر یہ بھی کرم ہوا کہ شدید سردی والی رات میں تیز ہوا چلی، جس سے دشمنوں کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور فرشتوں نے اللہ کے حکم سے ان کے دلوں میں شدید خوف و رعب پیدا کردیا اور انتہائی بے چینی اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے جیسے تیسے بھاگ پڑے۔ نبی کریم (ﷺ) نے حذیفہ بن الیمان (رض) کو حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا، انہوں نے آ کر آپ کو خبر دی کہ واقعی کفار وہاں سے کوچ کر رہے تھے، تو آپ کو اطمینان ہوا کہ اللہ نے تمام کفار عرب کو بغیر جنگ کے شکست دے دی تھی نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام جب مدینہ واپس آئے تو ظہر کا وقت تھا اسی وقت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور خبر دی کہ اللہ نے آپ کو یہودینی قریظہ کی طرف جانے کا حکم دیا ہے اور میں بھی انہی کی طرف جا رہا ہوں تاکہ ان کے دلوں میں خوف و رعب پیدا کروں، چنانچہ آپ (ﷺ) نے منا دی کرا دی کہ جو مسلمان بھی فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پڑھے اور مسلمانوں کا جھنڈا علی بن ابی طالب (رض) کے ہاتھوں میں دیا۔ پچیس دنوں کے محاصرے کے بعد بنو قریظہ والے رسول کریم (ﷺ) کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار ہوگئے، اور بالاخر اپنی خواہش کے مطابق ان کے زمانہ جاہلیت کے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے کے مطابق ان کے تمام بالغ مردقتل کردیئے گئے جن کی تعداد چھ یا سات سو تھی اور بچے اور عورتیں غلام اور لونڈی بنا لئے گئے اور ان کے اموال مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں میں تقسیم کر دیئےگئے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے جب سعد بن معاذ کا یہ فیصلہ ان کی زبان سے سنا تو فرمایا کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے یہی وہ حالات و واقعات ہیں جن کی جزئیات آیت (9) سے آیت (27) تک بیان کی گئی ہیں اور ان دونوں غزووں کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو احسانات کئے، انہی کی طرف آیت (9) میں اشارہ کیا گیا ہے اور’’ جنود ‘‘سے مراد کفار قریش اور قبائل عرب پر مشتمل وہ لشکر ہے جو مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہوا تھا۔ ” ریع“ سے مراد وہ تیز ہوا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لشکر کفار کے خیمے اکھاڑ دیئے اور ان کی ہانڈیاں الٹ دی تھی اور ﴿جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا﴾ میں ” جنود“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے اس دن بھیجا تھا اور جنہوں نے ان خیمے اکھاڑ پھینکے ان کی آگ بجھا دی انہیں تتر بتر کردیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔