ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے دوست ہیں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمھارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(4) زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اسے منہ بولے باپ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اس آیت کریمہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کی تردید کردی اور حکم دیا کہ ہر ایک کو اس کے باپ کی طرف منسوب کیا جائے، اللہ کے نزدیک عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے اور اگر کسی شخص کے باپ کا علم نہ ہو تو بھائی یا دوست جیسے الفاظ کے ساتھ اسے پکارا جائے اور اگر کوئی شخص کسی کو غلطی سے اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کر دے تو وہ اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ نہیں ہے۔ مواخذہ اس پر ہوگا کہ کوئی شخص جان بوجھ کر کسی کو اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابن عر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے آزاد کردہ غلام ” زید بن حارثہ“ (رض) کو ” زید بن محمد“ کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی، اور منہ بولے بیٹے کی مطلقہ عورت سے شادی جائز ہوگئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے زید بن حارثہ کی مطلقہ زینب بنت حجش سے شادی کرلی، تاکہ زمانہ جاہلیت کے مذکورہ بالا غلط رواج کا خاتمہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (37) میں فرمایا ہے :﴿لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا﴾” تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جبکہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں۔ “