وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس تو اس کی ملاقات سے شک میں نہ ہو اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔
(17) آیات (2/ 3) میں اس حقیقت کو آشکارا کیا گیا تھا کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں، بلکہ رب العالمین کا کلام ہے، اسی نے اسے بذریعہ وحی اپنے بندے اور رسول محمد (ﷺ) پر نازل کیا ہے، پھر چند آیات میں معاد و آخرت، جنت و جہنم، نیک و بد اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد، اب دوبارہ اسی ابتدائی مضمون کی طرف کلام کا رخ پھیر دیا گیا ہے کہ اے میرے نبی ! اگر ہم نے آپ کو قرآن کریم جیسی عظیم ترین کتاب دی ہے تو اس میں اہل مکہ کے لئے حیرت و استعجاب کی کیا بات ہے؟ ہم نے اس سے پہلے اپنے بندے اور رسول موسیٰ کو بھی تو ایک عظیم کتاب دی تھی، جس کا علم کفار مکہ کو ہے اور اس کتاب کو ہم نے نبی اسرائیل کے لئے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا اور ان میں ایسے علماء پیدا کئے جو لوگوں کی ہمارے دین کی طرف رہنمائی کرتے تھے اور اس راہ میں انہیں جو تکلیف پہنچتی تھی اسے انگیز کرتے تھے، صبر کرتے تھے اور ہماری کتاب کی صداقت و حقانیت پر پورا یقین رکھتے تھے نہ ان کے صبر و استقامت میں فرق آتا تھا اور نہ ہی وہ ہماری آیتوں میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس لئے آپ کے دور کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان لے آئیں۔ اس میں بیان کردہ رشد و ہدایت سے فائدہ اٹھائیں، دوسروں کو ایمان و توحید کی دعوت دیں اور اس راہ میں جو تکلیف بھی اٹھانی پڑے اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔