وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی کہ اللہ کا شکر کر اور جو شکر کرے تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو یقیناً اللہ بہت بے پروا، بہت تعریفوں والا ہے۔
(6) آیات (13,12) میں لقمان اور اس حکمت کا ذکر آیا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی۔ جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ لقمان نبی نہیں تھے، بلکہ ایک حکیم و دانا انسان تھے، جنہیں اللہ نے بذریعہ الہام حکمت و دانائی کی بہت سی مفید باتوں اور نافع افکار سے نوازا تھا، جن میں سرفہرست شرک باللہ کا انکار اور توحید ربوبیت و توحید الوہیت کا اعتراف تھا، بیشتر مفسرین کے قول کے مطابق یہ مصر کے سوڈانی علاقے کے رہنے والے تھے اور ایک قول کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے لئے قاضی مقرر کئے گئے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قوم عاد پر عذاب آنے کے بعد جو مسلمان بچ گئے تھے، انہی خاندانوں کے ایک فرد تھے بعد میں یہ لوگ یمن میں بس گئے تھے اور وہاں کے بادشاہ بن گئے تھے لقمان بھی انہی بادشاہوں میں سے ایک تھے بعض کا خیال ہے کہ وہ تھے تو سوڈان مصر کے کسی خاندان کے ایک فرد، لیکن مدین یعنی موجودہ عقبہ کے علاقے میں رہتے تھے جس کے سبب ان کی زبان عربی تھی اور ان کی حکمت کی باتیں عربوں میں مشہور ہوئیں۔ یہاں حکمت سے مراد دین کی سمجھ، صائب الرائے ہونا، ہر دم اللہ سے ڈرتے رہنا اور اسی کے ذکر و فکر میں لگے رہنا ہے مفسرین کے ایک قول کے مطابق ” حکمت“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے گویا رأس الحکمتہ یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے رب کا شکر گذار ہے۔ اس کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو یاد کر کے اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو اپنے رب کا شکر گذار ہوتا ہے، اس کا فائدہ بہرحال اسی کو پہنچتا ہے، اس کا خالق و مالک اس سے خوش ہوتا ہے، اور اسے مزید دنیوی اور اخروی نعمتوں سے نوازتا ہے اور جو شخص کفران نعمت کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور محمود الصفات ہے، وہ کسی کی حمد و ثنا کا محتاج نہیں ہے، اس ناشکری کا نقصان اسی بندہ ناشکر گذار کو پہنچتا ہے کہ اللہ اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی ہے جس سے وہ محروم کردیا جاتا ہے۔